آرٹس کونسل کراچی میں ضیاء محی الدین اورامجد اسلام امجد کی یاد میں تقریب

کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے پاکستان کی دو علمی و ادبی شخصیات ضیاء محی الدین اور امجد اسلام امجد کی یاد میں پر وقارتقریب کا انعقادجون ایلیاء لان میں کیا گیا۔

تقریب میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ،معروف ادیب و دانشور انور مقصود، افتخار عارف، زہرا نگاہ، کشور ناہید، انور شعور،عذرا محی الدین ، نورالہدیٰ شاہ، عنبرین حسیب عنبر، اصغر ندیم سید، اشفاق حسین، ناصر عباس نیر، مظہر عباس، جاوید صدیقی(آن لائن)، حمید شاہد، وسعت اﷲ خان، ندیم ظفر صدیقی، جنید زبیری، اشرف، اکبر اسلام سمیت علم و ادب سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے شرکت کی۔

صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ سب کے لیے یہ خبر تکلیف دہ تھی، ضیاء محی الدین ہمارے ہر ادبی میلے کے سیشن میں ساتھ ہوتے تھے، امریکہ بھی جانا تھا، ساری دنیا جانتی ہے کہ ضیا ایک ہی تھے، میری ان سے بہت محبت تھی۔ان کا بچپن، ساری زندگی کا ساتھ، کیسے وہ سیکنڈ ایئر میں پیسے جمع کرکے مری گئے، ابتدائی تربیت ن ،م،راشد کے پاس رہی، پھر لاہور کراچی۔ شادیوں کے قصے،معاشقوں کے قصے سناتے ہوئے ان کی آنکھیں روشن ہو جاتی تھیں۔

انہوں نے کہاکہ ان کی بہت ساری چیزیں ہیں جو پرنٹ نہیں ہوئی، مجھے سب دکھایا اور کہا کہ جب میں چلا جائوں تو تم نے یہ کام کرنا ہے، یہ ساری زندگی کا غم ہے، دو دن میں ختم ہونے والا نہیں۔انہوں نے کہاکہ امجد اسلام امجد سے گہرا تعلق تھا، امجد اسلام امجد بہت بڑے آدمی تھے، ہمارے لیے بڑا سانحہ تھا، ہمارے پاکستان لٹریچر فیسٹیول میں انہیں شریک ہونا تھا، صبح خبر ملی کہ امجداسلام امجد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آرٹس کونسل سے دونوں کا گہرا تعلق تھا۔معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ ضیاء محی الدین بہت مشکل آدمی تھے، ان کے پاس ان کی قربت کے لیے ان کی دوستی اور آشنائی کے لیے بہت ہمت اور جرات چاہیے ہوتی تھی ، انہوں نے کہاکہ ضیاء محی الدین جیسا کلاسیکل انسان میں نے نہیں دیکھا، پہلے ہمارے ہاں پڑھت کا تصور نہیں تھا انہوں نے جوش اور فیض احمد فیض کی نظمیں ضیاء محی الدین شو میں پڑھنی شروع کیں اور جس طرح وہ پڑھتے تھے۔ کبھی قریب سے بھی ان جیسا پڑھنے والا نہیں گزرا۔ انہوں نے کہاکہ امجد اسلام امجد نے زندگی میں جس چیز کی خواہش کی وہ سب اسے مل گیا ہے انہوں نے دنیا میں بہت مقبولیت حاصل کی اور آخرت میں بھی کے درجات بلند ہوں گے۔شاعر انور شعور نے کہاکہ ضیاء محی الدین کا خلا کبھی پْر نہیں ہوسکتا، ان کا جو اردو نظم اور نثر سنانے کا انداز تھا اس کے پیچھے ایک علمی پس منظر تھا،وہ منفرد لب و لہجے کے مالک تھے۔

انہوں نے کہاکہ اب تو خواب ہی معلوم ہوتا ہے کہ ضیاء محی الدین جیسا دوسرا کوئی پیدا ہوگا، اردو میں غلطیاں بہت ہونے لگی ہیں جیسے اب عوام مونث ہوگئی ہے، انہوں نے کہاکہ امجد اسلام امجد نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع ازمائی کرتے تھے اورہر سمت میں ان کا معیار یکساں رہتا، انہوں نے کبھی قلم چھوڑ کر ہڑتال نہیں کی وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے جو مرتے دم تک جاری رہا،زہرانگاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ امجد اسلام امجد سے مل کر طمانیت کا احساس ہوتا تھا وہ ہمیشہ محبت سے پیش آتے اور سب کی عزت کرتے تھے، امجد شاعر اور کے ساتھ ساتھ ایک بہترین نثر نگار بھی تھے۔

میں نے بڑے بڑے شاعروں کو شعر پڑھتے ہوئے لڑکھڑاتے دیکھا ہے۔معروف شاعرہ کشور ناہید نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہاکہ ایک لڑکا تھا جوکرکٹ کھیل کر آتا اور ہمارے ساتھ بیٹھ جاتا تھا اس کا نام امجد اسلام امجد تھا، انہوں نے شاعری پر بہت کام کیا، انہیں بہت لطیفے یاد تھے اگر میں کوئی کلام بھول جاتی تو امجد سے بات کرتی تھی ، انہوں نے کہاکہ ضیاء بھائی اور میری کئی بار تلفظ پر لڑائی ہے، وہ بہت کم بات کیا کرتے تھے ، ہم نے ہمیشہ اپنے سینئروں کی عزت اور کرتے رہیں گے۔

نور الہدیٰ شاہ نے کہاکہ امجد اسلام امجد اورضیاء محی الدین کا دنیا سے چلے جانا بہت بڑا نقصان ہے، جس طرح امجد میرا نام لیتے تھے وہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے، ان کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر آرٹس کونسل ندیم ظفر صدیقی نے کہاکہ امجد اسلام امجد سے اچھے تعلقات تھے، وہ ایک شاعر کے ساتھ ساتھ بہت اچھے انسان بھی تھے۔تقریب کے اختتام پر امجد اسلام امجد اور ضیاء محی الدین کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔