اقلیتی فیصلہ تو فیصلہ ہی نہیں ہوتا، ماننا کیسا، اگلے انتخابات وقت پر ہونگے:مریم نواز

راولپنڈی:مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے، اقلیتی فیصلہ تو فیصلہ ہی نہیں ہوتا، اسے ماننا کیسا؟ عدلیہ میں کسی آمر کو کٹہرے میں لانے کی جرات نہیں،آپ کا زور صرف عوام کے وزرائے اعظم پر چلتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کے ہاتھوں یرغمال بننے سے انکار کردیا ،ان کا کیس ابھی تک سپریم جوڈیشل کونسل میں لٹکا ہوا ہے، چیف جسٹس صاحب! آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہئے تھا۔

آپ کو اس وقت جذباتی ہونا چاہئے تھا جب منتخب وزیراعظم کو نکالا گیا،الیکشن سے متعلق مقدمہ عمران خان اور پی ڈی ایم کا تھا، صرف پی ٹی آئی کو سنا گیا، جو مقبول لوگ ہوتے ہیں انہیں تین چار ججز کی ضرورت نہیں پڑتی، عمران خان، سہولت کاروں نے اگلے چیف جسٹس کے آنے سے پہلے کی ٹائم لائن بنا رکھی،ڈرتے نہیں، توہین عدالت لگانی ہے تو لگادو،صاف اور شفاف فیصلے ہوں گے تو توہین نہیں ہوگی۔

ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جاسکتا ہے تو اگلے امیدوار وزیراعظم کو جھوٹ بولنے پر نکالا نہیں جاسکتا،جن کے کوئی اصول نہیں ہوتے، کوئی مشن نہیں ہوتا، اصول مؤقف نہیں ہوتا وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے،عمران سب کے نام لے گا ، فیض کا نام نہیں لے گا۔ بدھ کو یہاں مسلم لیگ (ن) کے وکلا ء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا عمران خان اور ان کے سہولت کاروں نے ایک ٹائم لائن رکھی ہوئی ہے کہ ستمبر میں اگلا چیف جسٹس آنا ہے تو اس پہلے پہلے جو سہولت کاری کرنی ہے کرلو، پوری قوم یہ تماشہ دیکھ رہی ہے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا جب پی سی او اور ایل ایف او کے نیچے ججز حلف اٹھا رہے ہوتے تھے تو منتخب وزیراعظم کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگایا کر عدالت میں لے کر جایا جاتا تھا۔انہوں نے کہا آپ کا زور صرف عوام کے وزرائے اعظم پر چلتا ہے؟ کیا کبھی کسی نے دیکھا کہ کسی ڈکٹیٹر کو سسلین مافیا، گاڈ فادر کا لقب ملا؟مریم نواز نے کہا جب الیکشن کا کیس چل رہا تھا تو سننے کو ملا کہ چیف جسٹس جذباتی ہوگئے، آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہئے تھا جب منتخب وزیراعظم کو دفتر سے نکالا گیا۔مریم نواز نے کہا چیف جسٹس صاحب! آپ کو اس وقت بھی جذباتی ہونا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا میں چیف جسٹس سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ کسی نظریے ،کسی اصول کے لئے جیل جانا کتنے بڑے فخر کی بات ہے، میں 2 مرتبہ سزائے موت کی چکیوں میں رہ کر آئی ہوں تاہم ایک دن نہیں روئی نہ پچھتائی۔مریم نواز نے کہا چیف جسٹس صاحب! آپ نے شہباز شریف سمیت ساری حکومت کو یہ طعنہ تو دے دیا کہ کل جیل میں تھے اور آج پارلیمان میں تقریریں کررہے ہیں، ذرا یہ بھی کہا ہوتا کہ کچھ ایسے بزدل بھی ہیں کہ جب ان کے پاس عدالتی حکم نامہ آتا ہے تو وہ چارپائی کے نیچے سے نہیں نکلتے۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا عمران خان کی ذاتی زندگی سے مجھے کوئی سروکار نہیں تاہم فارم بھر کر الیکشن لڑتے رہے اور اپنی بیٹی کو ظاہر نہیں کیا، یہ جھوٹ تم نے قوم سے بولا ہے، اس لئے حساب ہوگا، ایک وزیراعظم کو اقامہ پر نکالا جاسکتا ہے تو اگلے امیدوار وزیراعظم کو اتنا بڑا جھوٹ بولنے پر کیوں نکالا نہیں جاسکتا۔

انہوں نے کہا آج بھی مجھے ڈرایا جاتا کہ تم سیدھی بات کرتی ہو توہین عدالت لگ جائے گی، میں کہتی ہوں لگتی ہے تو لگادو۔مریم نواز نے کہاآپ آئین کے محافظوں میں سے ہیں، آپ کو اﷲ نے انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بٹھایا اور آپ نے کیا کہ 25 ارکان عمران خان کو دینے کیلئے آئین کو ہی فارغ کردیا اور پھر پنجاب حکومت اسے پلیٹ میں رکھ کر دی کہ لو اسے توڑ دو، کیوں کہ ٹائم لائن بنائی ہوئی ہے کہ انتخابات اس وقت تک ہونے ہیں جب تک اوپر سہولت کار بیٹھے ہیں۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں متنازعہ انتخابات کا انعقاد ملک کو افر اتفری اور انارکی طرف لے کر جائے گا، موجودہ حکومت اسی کے سامنے رکاوٹ بن کے کھڑی ہے ، انتخابات تمام فریقین کی مرضی اور اتفاق رائے سے ہونے چاہئیں ۔انہوں نے کہا سیاسی جماعتوں ، سپر یم کورٹ کے ججز کا الیکشن پر اتفاق نہیں لیکن تین ججزنے پنجاب میں 14 مئی کے الیکشن کا نیا شیڈول دے دیا۔

الیکشن کمیشن ،دفاعی اداروں ، سکیورٹی کے اداروں کو اس سے اتفاق نہیں ہے اورچار جج اس کے خلاف اور تین حق میں فیصلہ دے رہے ہیں۔ وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا ملک ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ، ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے اور ترازو کے پلڑے برابر کرنے ہیں تو اس ضمن میں وکلا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، وکلا کی طرف سے عدل کے ایوانوں کو پیغام دے دیا گیاہے کہ ترازو کے پلڑے برابر تولو۔