برطانیہ:ایمبولینس ورکر،نرسوں کی تاریخی ہڑتال (فوج خدمات سرانجام دینے کیلئے تیار)

لندن: برطانیہ میں ایمبولینس ورکرزاور نرسوں کی تاریخی ہڑتال کے بعد فوج نے خدمات سرانجا م دینے کیلئے تیاری شروع کردی۔برطانوی میڈیا کے مطابق ایمبولینس ورکرز نے بھی 10 فروری سے نرسز کی ہڑتال میں شامل ہونے کااعلان کر رکھا ہے۔برطانوی بزنس سیکرٹری نے ایمبولینس ورکرز کی ہڑتال کو تشویشناک قراردیا اور کہا کہ اس اقدام سے زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوگا،دوسری جانب ایمبولینس ورکز کی ہڑتال کے دوران برطانوی فوج خدمات انجام دےگی۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں مختلف اداروں کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے کیلئے ہڑتالیں کررہے ہیں۔برطانیہ میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کے خلاف ہیلتھ ورکرز کی جانب سے اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال جاری ہے جس کی وجہ سے صحت کے نظام میں شدید خلل پیدا ہوا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق نرسیں اور ایمبولینس ورکرز گزشتہ سال سے باری باری احتجاجی مظاہرے کرتے رہے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے سے ہونے والا احتجاج برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی 75 سالہ تاریخ میں سب سے بڑا ہے۔برطانیہ میں بڑھتی تاریخی مہنگائی کی وجہ سے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے ورکروں کی جانب سے احتجاج اور ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے جہاں پیر کو ہزاروں ایمبولینس ملازمین انگلینڈ اور ویلز میں ایک بار پھر ہڑتال پر چلے گئے تھے۔برطانیہ حکومت کے ساتھ تنخواہوں کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تنازع کی وجہ سے ہیلتھ ورکرز کی جانب سے اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال کی جارہی جس میں ہزاروں نرسیں اور ایمبولینس ورکرز سڑکوں پر نکل آئے ہیں جس سے صحت کے پہلے سے ہی مشکلات کے نظام میں مزید خلل پیدا ہوگیا ہے۔انگلینڈ کے ٹاپ ڈاکٹر اسٹیفن پوئس نے کہا کہ رواں ہفتے ہونے والے احتجاج میں فزیو تھراپسٹس کا واک آؤٹ بھی شامل ہوگا جو کہ اب تک کا سب سے خلل پیدا کرنے والا احتجاج ہے۔خیال رہے کہ برطانیہ میں ہیلتھ ورکرز تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ چار دہائیوں میں بدترین افراط زر کی عکاسی ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اضافہ ناقابل برداشت ہو گا اور ا عمل سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا جس کے نتیجے میں شرح سود اور قرض کی ادائیگیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ایمبولینس سروس سے وابستہ ملازمین نے گزشتہ سال 21 دسمبر کو ہڑتال کے اس سلسلے کا آغاز کیا تھا جب کہ فروری کے مہینے میں بھی مزید ہڑتالوں کی تاریخیں طے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہیلتھ ورکرز کے تقریباً 5 لاکھ افراد جن میں سے زیادہ تر پبلک سیکٹر سے ہیں وہ گزشتہ برس سے ہڑتالیں کر رہے ہیں جس سے وزیر اعظم پر تنازعات کو حل کرنے کے لیے دباؤ پڑ رہا ہے۔