حالات بدلنا ہوں گے

ایسا لگتا ہے ملک کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ یہاں سیاسی استحکام نہ آنے دیا جائے۔ محمد علی جناح، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح، ذوالفقار علی بھٹو، پھر کبھی نواز شریف، کبھی محترمہ بینظیر بھٹو تو کبھی عمران خان، کسی کو بھی چلنے نہیں دیا گیا۔

آصف علی زرداری کے دور میں جب جمہوری حکومت نے وقت پورا کیا تو ایسا لگا کہ اب شاید حقیقی جمہوریت آجائے۔ پانچ سال پورے کرنا آصف علی زرداری کا ہی گر تھا، اس کے بعد پھر اس ملک میں وہی ہوا جو ہوتا رہا ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام کا فائدہ صرف اور صرف سیاستدانوں یا امیر طبقے کو ہی ہوتا ہے۔ جانے والا بہت آسانی سے یہ کہہ جاتا ہے کہ سب ٹھیک ہونے ہی والا تھا لیکن مجھے وقت نہیں دیا گیا، آنے والا یہ کہتا ہے کہ جانے والا بے انتہا بگاڑ پیدا کرگیا ہے، لہٰذا مجھے سب ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد سے ہی اس کھیل کا آغاز ہوا اور یہ کھیل عوام کے ساتھ اب تک چل رہا ہے۔

عمران خان کے پاس اس وقت سیاسی میدان خالی ہے۔ ملک کی دیگر تمام ہی جماعتیں سوائے جماعت اسلامی کے ایک طرح سے حکومت کا حصہ ہیں، لہٰذا انہیں اس وقت جلسے کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ وقت۔ عمران خان ملک کے میدانوں میں جو چاہیں کریں، جو چاہیں کہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور ملک کی دیگر جماعتیں سیاسی اور جمہوری میدان میں جو چاہیں کریں، جتنے چاہے فائدے حاصل کریں، ان سے بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہر ایک سیاسی رہنما پر بنائے گئے مقدمات بھی تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

موجودہ حکومت پچھلی حکومت سے بھی زیادہ ناکام ثابت ہورہی ہے۔ میاں شہباز شریف نے بھائی کے زور پر وزارت اعلیٰ تو چلا لی لیکن کئی منتوں کے بعد جب انہیں بھائی کی جگہ ملی تو اب وہ بھی مشکل میں ہیں اور عوام بھی۔ امید ہے کہ جب اسحاق ڈار ملک میں واپس آگئے ہیں تو میاں نواز شریف بھی واپس آہی جائیں گے لیکن ان کے آنے تک میاں شہباز شریف کیا کریں گے؟ یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ حکومت کی دوسری تمام ناکامیوں کے ساتھ سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ مہنگائی ختم کرنے کے ارادے سے آنے والی حکومت نے سابقہ حکومت کے مہنگائی کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ جیسے جیسے مہنگائی میں اضافہ ہوا ملک کے بڑے شہروں میں وارداتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈکیتوں نے کراچی، اسلام آباد، لاہور اور پشاور جیسے شہروں کا رخ کرلیا ہے اور پولیس کا ادارہ ان کے سامنے بے بس نظر آتا ہے۔

یہ ڈکیت ہیں کون؟ یاد رکھیے کہ چوری کبھی بھی مڈل کلاس نہیں کرتی۔ مڈل کلاس کو تو ہمیشہ سے ہی پسنے کی عادت ہے۔ مہنگائی ہوگی تو یہ دو کی جگہ ایک روٹی کھانا شروع کردیں گے۔ دو ملازمتیں کریں گے۔ زیادہ مہنگائی ہوئی تو میاں بیوی دونوں ملازمت شروع کردیں گے اور کسی طرح کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر دو وقت کی روٹی کھالیں گے اور عزت سے اپنا بھرم قائم رکھیں گے۔ چوری ہمیشہ یا تو امیر لوگ کرتے ہیں یا پھر غریب لوگ۔ امیر بڑی چوریاں کرتے ہیں۔ کروڑوں کی، اربوں کی، جس میں سب کا حصہ شامل ہوتا ہے۔ اول تو سب کو حصہ ملنے کی وجہ سے بڑے چور پکڑے ہی نہیں جاتے اور اگر کوئی انہونی ہو بھی جائے تو ان کےلیے پلی بارگین، این آر او، اور بیرون ملک سیاسی پناہ جیسے راستے موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا انہیں کسی قسم کو کوئی خطرہ نہیں۔ اب بات کرلیں غریب چوروں کی۔

ان غریب چوروں نے جہاں ہمارے اداروں کو بے بس کر رکھا ہے، وہیں انہیں بے نقاب بھی کردیا ہے۔ اس حکومت کے عہد میں مزدور، کسان، تاجر، سرکاری و غیر سرکاری ملازم، مولوی اور درویش، سب پریشان ہیں۔ چھوٹے بڑے شہروں کے عام محلوں میں مختلف گروہ مختلف وارداتیں کر رہے ہیں۔ عوام جہاں مہنگائی سے پریشان ہیں، وہیں ان چوروں سے بھی تنگ ہیں۔ اسی لیے اگر کوئی چور ان کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کا وہی حال کرتے ہیں جو درحقیقت ملک کو تباہ کرنے والوں کا کرنا تھا۔