عمران خان اگر عدالتی حکم پر پیش ہو جاتے تو ملک میں یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی، قمر زمان کائرہ
Share
اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر وگلگت بلتستان قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ عمران خان اگر عدالتی حکم پر پیش ہو جاتے تو ملک میں یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
پولیس حکومتی احکامات پر نہیں بلکہ عدالتی احکامات پر عمران خان کو پکڑ کر عدالت کے سامنے پیش کرنے کیلئے زمان پارک گئی تاہم اس پر پٹرول بم سمیت دیگر حملے کئے گئے، پولیس کے ساتھ اس رویہ پر ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا اس طرح ریاست قائم رہ سکتی ہے۔
عمران خان نے جس طرح اپنے کارکنوں کو اشتعال دلایا ایسا کوئی اور کرتا تو اس کے خلاف کارروائی ہو چکی ہوتی۔بدھ کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کافی عرصہ سے پاکستان میں جاری کشمکش کا شاخسانہ یہ نکلا کہ ایک بار پھر عمران خان جیتا اور قانون بے بس ہوا۔
کل سے زمان پارک کی ہیجانی صورتحال نے ساری قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ،یہ سنجیدہ صورتحال ہے۔
عمران خان کے کارکن کہہ رہے ہیں کہ ان کو گرفتار نہیں ہونے دینا،یہ حکومت وقت کا گرفتاری کا حکم نہیں خالصتا عدالتی حکم پر عملدرآمد تھا ،اگر وہ عدالتی نوٹس پر پیش ہوتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔
عمران خان قانون سے بالا اپنے رویے پر عمل پیرا ہیں،جب نوٹس دینے پولیس گئی تب بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ،عدالت نے 13 مارچ کا وقت دیا لیکن پیش نہیں ہوئے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ریاست کہاں کھڑی ہے۔
عدالت کے حکم پر عمل نہیں ہوتا ،عمران خان اپنے کارکنوں کو اشتعال دلانے کے لئے ایک مفروضہ پر مبنی ویڈیو بیان جاری کرتے ہیں۔
عمران خان کو اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہونے پر خطرہ ہے لیکن ریلیوں میں خطرہ نہیں،آج انتہا ہوگئی ہے ،پولیس پر پتھرا ہورہا ہے،لاٹھیاں برسانے کے بعد اب زمان پارک سے پٹرول بم پولیس پر برسائے جارہے ہیں۔
ہم نے اپنے اداروں کو بھی کمزور کردیا ہے،میڈیا اور ہر طبقہ کو یہ دیکھنا چاہئے کہ جو شخص اشتعال دلا رہا ہے اس کو دکھا رہے ہیں۔
۔انہوں نے کہا کہ پولیس امن وامان کو کنٹرول کرنے کی ذمہ دار ہے اس میں بھی خامیاں ہیں لیکن ہم نے اس کی حالت خراب کردی ہے،دنیا بھر میں پولیس کے پاس ہر قسم کا ہتھیار ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی رٹ قائم رکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت پولیس والے کو طلب کرلیتی ہے لیکن غلیل سے پتھر پھینکنے والوں کو چھوٹ ہے،ہم نے پولیس کے ہاتھ مختلف جتھوں کے آگے باندھ دیئے ہیں۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ اپنے اداروں کو اتنا بے بس کر کے کیا ہم ریاست کو چلا سکتے ہیں،کیا عدالتیں عملدرآمد نہ ہونے پر احکامات دینے چھوڑ دیں،ایسے حالات ہی کی وجہ سے ہم دہشت گردی کا شکار ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے عمران خان سے کوئی دشمنی نہیں لیکن اس سوچ سے ہے جو تشدد کا راستہ ہے،پولیس ہمارے دفاع کے لئے کس حوصلہ کے تحت کھڑ ی ہو گی جب اس کے خلاف کیس ہوں، اس طرح ریاست نہیں چل سکتی،عمران خان اپنے آپ کو عدالت کے سامنے سرنڈر کریں۔
پاکستان کے عوام کے سامنے سوال ہے کہ اگر عمران خان عدالت کی بات مانتے تو یہ صورتحال پیدا ہوتی؟ہمارے خلاف بھی کیس بنے ،ہم عدلیہ کے آگے پیش ہوئے،آصف زرداری کی نیب پیشی کے لئے دو اہلکار آئے اور ہم پیش ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آج پی ٹی آئی اپنے کارکنوں کو یہ شہ دے رہی ہے کل پی پی،مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں بھی ایسا ہی کریں گی،قانون سے بالاتر والا رویہ افسوسناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کو عدالت عدم پیشی پر پکڑ کرلانے کے احکامات دیتی ہے تو پولیس اس پر عملدرآمد کیلئے جاتی ہے جہاں اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے،، ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہے ان کو حوصلہ دینا ہے۔
یہ ہماری حفاظت کرتے ہیں ان کا تمسخر اڑانے سے گریز کرناچاہئے،پولیس عدلیہ کے احکامات پر عملدرآمد کرانے جائے اور اس کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو اگر وہ ردعمل میں اقدام کرے تو عدالت اس کو بلالے، اس سے پولیس کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توشہ خانہ کے ریکارڈ کے بارے میں میڈیا کو سب پتہ تھا،ہر لیڈر کے تحفہ کا ذکر ہوتا رہا،یہ مباحثہ ہورہا ہے کہ سب نے توشہ خانہ سے تحائف لئے ،عمران خان نے کون سا جرم کیا۔
جس نے قانون کے تحت تحائف لئے اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں،تحفہ لینا اور بیچنا اس کا استحقاق ہے گوکہ یہ غیر اخلاقی ہے،اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو تحفہ دے اور وہ بیچ دے تو اس ملک کی کیا عزت رہ جائے گی،عمران خان تو غلطیوں سے مبرا تھے۔
عمران خان کے دورمیں توشہ خانہ سے تحائف 50فیصد ادائیگی پر لینے کا قانون بنا اب سوفیصد ادائیگی کے بعد یہ تحائف رکھنے کا قانون بن گیا ہے،ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ایسا قانون ہو کہ قیمتی تحائف دیئے ہی نہ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جرم یہ ہے کہ اس نے یہ تحائف گوشواروں میں ظاہرنہیں کئے،اس کی فروخت پر جو خالص منافع ہوا اس پر ٹیکس نہیں دیا،تحفہ اور کیش کی صورت میں گوشواروں میں اسے ظاہر نہیں کیا۔
عمران خان ہر لیڈر کو گالیاں دے رہے تھے تاہم جب وہ ان کے پاس گئے تو پاک ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی اداروں کے خلاف تقاریر چلاکر کون سی ملک کی خدمت ہورہی ہے،یہ بھی دیکھنا ہو گا ،ملک میں انتخابات کا عمل جاری ہے اس پر اداروں کو سکیورٹی کے خدشات ہیں لیکن الیکشن پھر بھی ہونے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کوشاں تھے کہ انتخابات ایک ہی وقت میں ہوں،الگ الگ انتخابات کی ریاست مالی اور سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے اس وقت متحمل نہیں ہوسکتی،پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کا مطلب ہے کہ 75 فیصد ملک میں یہ عمل ہوگا،پھر چار ماہ بعد پھر الیکشن ہونے ہیں ،ان میں اس سے زیادہ اخراجات ہوں گے۔
انتخابات ملک میں استحکام کے لئے ہوتے ہیں لیکن اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے الیکشن ملک میں امن واستحکام کے لئے بہتر ثابت ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ایک ہی وقت انتخابات ہی مسائل کا حل ہیں،الیکشن سے اگر فساد اور بغاوت بڑھتی ہے تو ہمیں دیکھنا چاہئے،آئین مقدم ہے اور اس پر عمل کرنا ہے،ہمیں اپنی پولیس کو طاقت دینا ہوگی،عدالت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ پولیس سے ایسے تقاضے نہ کریں کہ وہ سپرہیومن ہیں۔
اعتزاز احسن کے اپنے دفاع میں گولی چلانے کے حق کی دلیل کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اپنے دفاع میں گولی چلانے کے حق کے مفروضے کا دوسرا پہلو بھی دیکھ لیں کہ پولیس کو بھی یہ حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ عدالت میں طلبی پر خطرہ ہے تو کیا ریلیوں اور جلوسوں میں یہ خطرہ نہیں ہے۔
پولیس عمران خان کے گھر عدالت کے حکم پر عملدرآمد کے لئے گئی تھی، وہ عدالت میں پیش ہوتے تو ایسی صورتحال کیوں پیش آتی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابی عمل جاری ہے۔
یوسف رضا گیلانی کا موقف تھا کہ اپنے صدر کو کسی غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا،انہوں نے اس انکار پر سزا پائی،عمران خان عدالتی حکم میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ ہم نے عدالتوں کا حکم مانا،ہم اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کمزور کررہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے لندن پلان کی بات پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی لندن پلان ہے تو اس میں کوئی فریقین بھی ہوں گے تو عمران خان ان کے نام لیں کہ کس کے ساتھ یہ پلان بنا۔
مسلم لیگ ن تو اس وقت وفاق میں اقتدار میں ہے،عمران خان اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کی پولیس کے زمان پارک موجودگی کے حوالے سے آئی جی پولیس سے پوچھا تو بتایا گیا کہ وزیراعلی کے ساتھ کچھ اہلکار وہاں گئے تھے ان کو ہٹا لیا گیا تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ پولیس کی طرح کی وردیوں میں ملبوس لوگ وہاں موجود تھے،اس پر نئے آئی جی تحقیقات کریں گے،ریاست کی پولیس کو ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں آنا چاہئے،اگر عمران خان کی طرح کی باتیں کسی اور نے کی ہوتیں تو اب تک کارروائی ہو چکی ہوتی۔۔