چین پاکستان ریلوے منصوبہ کا تخمینہ 58 بلین ڈالر ہے: چینی ادارے کی رپورٹ

بیجنگ : چین کا سب سے بڑا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ٹرانسپورٹ پروجیکٹ ’’چین پاکستان ریلوے‘‘ کے اخراجات کا تخمینہ 400 بلین یو آن لگایا گیا ہے۔ 400 ارب یو آن لگ بھگ 57.7 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔ چین کی حکومت کی طرف سے تیار کی گئی ایک فزیبلٹی سٹڈی سے پتہ چلا ہے کہ بڑی لاگت کے باوجود سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے یہ منصوبہ فائدہ مند ہے اور اسے آگے بڑھانا چاہیے۔

پاکستان کی بندرگاہ گوادر کو چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ کے علاقے کاشغر سے جوڑنے والی مجوزہ ریلوے منصوبے کا جائزہ چائنا ریلوے فرسٹ سروے اینڈ ڈیزائن انسٹی ٹیوٹ گروپ کمپنی لمیٹڈ کے سائنسدانوں نے لیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کیپٹل آپریشنز ژانگ لنگ کی قیادت میں ٹیم نے کہا کہ یہ منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ پلان کا سب سے مہنگا ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ہے۔

اس ٹیم نے اپریل میں چینی زبان کے جریدے ریلوے ٹرانسپورٹ اینڈ اکانومی کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا کہ لاگت کے باوجود اس منصوبے میں یوریشین براعظم میں تجارت اور جغرافیائی سیاست کو نئی شکل دینے کی صلاحیت ہے اور اس منصوبے کی حمایت کی جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور مالیاتی اداروں کو اس منصوبے کے حوالے سے [چین میں] مضبوط تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ واضح رہے یہ ادارہ چین میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر ریلوے کے بہت سے بڑے منصوبوں میں شامل رہا ہے۔ ان منصوبوں میں انڈونیشیا کی جکارتہ بانڈونگ ہائی سپیڈ ریل لائن بھی شامل ہے۔ 3 ہزار کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا یہ منصوبہ چین کے مغربی علاقوں کو بحیرہ عرب سے جوڑ دے گی۔ ایران اور ترکی سمیت دیگر ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس کے ساتھ روابط بھی چینی سامان کے لیے یورپ کے لیے زیادہ سیدھا راستہ فراہم کریں گے۔

پاکستان کو بھی بہتر انفراسٹرکچر میسر آئے گا اور چین کے ساتھ اس کی آسان تجارت کو بڑا فروغ ملنے کی توقع ہے۔اس تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’ چین پاکستان ریلوے‘‘ منصوبے میں حصہ ڈالنے سے پاکستان قاصر نظر آرہا ہے۔

پاکستان کی گزشتہ برس کی جی ڈی پی 370 بلین امریکی ڈالر رہی جو اس منصوبے کی تخمینہ لاگت سے صرف چھ گنا زیادہ ہے۔ اس منصوبے کے لیے معاون انفراسٹرکچر کی بھی ضرورت ہے جو پاکستان میں فوری طور پر دستیاب نہیں ہوسکتا۔

مطالعہ میں کہا گیا کہ پاکستان کی لیبر پالیسیاں غیر متوقع نوعیت کی ہوسکتی ہیں جو ممکنہ طور پر ریلوے کی تعمیر اور آپریٹنگ لاگت کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ٹیم نے مزید کہا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں میں سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔

یہ سکیورٹی چیلنجز بھی ممکنہ طور پر ریلوے کی تعمیر اور آپریشن میں خلل ڈال سکتے ہیں اور چینی کارکنوں اور سرمایہ کاری کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ژانگ کی ٹیم نے تجویز پیش کی کہ بلڈ اینڈ ٹرانسفر ماڈل جسے ’’بی ٹی ‘‘ ماڈل بھی کہا جاتا ہے اس منصوبے کے لیے بہترین سرمایہ کاری اور مالیاتی حکمت عملی فراہم کرے گا۔